سوہنے یار باجھوں میڈی نہیں سردی-اردو ترجمہ

سوہنے یار باجھوں میڈی نہیں سردی
تانگھ آوے ودھدی سک آوے چڑھدی
محبوب کے بغیر میرا گزارا نہیں ہورہا
انتظاربھی دم بدم اورذوق و شوق بھی بڑھ رہا ہے
کیتا ہجر تیڈے میکوں زارو رارے
دل پارے پارے سر دھارو دھارے
مونجھ وادھو وادھے ڈکھ تارو تارے
رب میلے ماہی بیٹھی دھانہہ کر دی
تیرے جدائی مجھے زاروقطار رلا رہی ہے
دل پارہ پارہ ہے اور سر بوجھل ہے
افسردگی زوروں پر ہے اور غموں سے تار تار ہو گیا ہوں
رب مجھے اس سے ملا دے میں ہر دم یہی فریاد کر رہی ہوں
سوہنا یار ماہی کڈیں پاوے پھیرا
شالا پا کے پھیرا پچھے حال میرا
دل درداں ماری ڈکھاں لایا دیرا
راتیں آہیں بھردی ڈینہاں سولاں سڑدی
کبھی تو ادھر بھی پھیرا لگا جائے
پھیرا کر کے میرا حال پوچھ لے
دل دکھوں سے بھرا ہے غموں نے ڈیرا ڈالا ہوا ہے
رات کو آہیں بھرتیں ہوں دن کو زخموں سے چور ہوتی ہوں
پنوں خان میرے کیتی کیچ تیاری
میں منتاں کر دی تروڑی ویندا یاری
کئی نہیں چلدی کیا کیجئے کاری
سٹ باندی بردی تھیساں باندی بر دی
پنوں خاں نے کیچ جانے کی ٹھان لی ہے
میں منتیں کررہی ہوں لوگوں دیکھو عہد توڑ رہا ہے
کچھ بس نہیں چلتا کیا کروں
اپنی باندیوں کو چھوڑ کر میں اس کی باندی بننے کو تیار ہوں
رو رو فریدا فریاد کر ساں
غم باجھ اس دے بیا ساہ نہ بھرساں
جا تھیسم میلا یا رُلدی مرساں
کہیں لا ڈکھائی دل چوٹ اندر دی
فرید رو رو کر ہر دم فریاد کرتی ہوں
اس کے غم کے بغیر سانس بھی نہین بھرتی
یا تو میں جا ملوں گی یا پھر ڈھونڈتے مر جاؤں گی
دل کی چوٹ کاری ہے نظر بھی نہیں آتی

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے ۔۔۔ باقی صدیقی

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنی دِیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
خُود فریبی سی خُود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سُہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گُماں
ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رُخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اُٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قِسمت سے ہے مفر کس کو
تِیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ موسمِ گُل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے شرار آنے لگے
باقی صدیقی

صوفی حنیف اخگر ملیح آبادی کا صوفیانہ کلام: عزم سفر سے آگے بھی

صوفی حنیف اخگر ملیح آبادی کا صوفیانہ کلام: عزم سفر سے آگے بھی
عزمِ سفر سے پہلے بھی اور ختمِ سفر سے آگے بھی
‘راہ گزر ہی راہ گزر ہے، راہ گزر سے آگے بھی’
تابِ نظر تو شرط ہے لیکن، حدِّ نظر کیوں حائل ہے
جلوہ فگن تو جلوہ فگن ہے، حدِّ نظر سے آگے بھی
صبحِ ازل سے شامِ ابد تک، میرے ہی دم سے رونق ہے
اِس منظر سے اُس منظر تک، اُس منظر سے آگے بھی
وہم و گُماں سے علم و یقیں تک، سیکڑوں نازک موڑ آئے
روئے زمیں سے شمس و قمر تک، شمس و قمر سے آگے بھی
دل سے دعا نکلے تو یقیناً بابِ اثر تک پہنچے گی
آہ جو نکلے دل سے تو پہنچے، بابِ اثر سے آگے بھی
دیدۂ ترکا اب تو اخگرؔ ایک ہی عالم رہتا ہے
نالۂ شب سے آہِ سحر تک، آہِ سحر سےآگے بھی

میرے طُولِ شبِ جُدائی کو-جلیل مانک پوری

نیم جانوں پہ کیا گزرتی ہے
نرگسِ نیم باز کیا جانے

پاک بازان مے کدہ کا مقام
جو نہ ہو پاک باز کیا جانے

میرے طُولِ شبِ جُدائی کو
تیری زلفِ دراز کیا جانے
۔۔۔۔۔۔
جلیل مانک پوری

محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا-مفتی تقی عثمانی

محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مزدور ہو جانا
قدم ہیں راہِ الفت میں‌ تو منزل کی ہوس کیسی؟
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہو جانا
بسا لینا کسی کو دل میں، دل ہی کا کلیجا ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا
نظر سے دور رہ کر بھی تقی وہ پاس ہیں میرے
کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا
( مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ )

وہ فراق اور وہ وصال کہاں-مرزا غالبؔ

وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں‌طاقت، جگر میں حال کہاں
فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
.
مرزا غالبؔ

آپ کی آنکھ اگر آج گلابی ہوگی-عبدالحمید عدم

آپ کی آنکھ اگر آج گلابی ہوگی
میری سرکار بڑی سخت خرابی ہوگی
محتسب نے ہی پڑھا ہوگا مقالہ پہلے
مری تقریر بہرحال جوابی ہوگی
آنکھ اٹھانے سے بھی پہلے ہی وہ ہوں گے غائب
کیا خبر تھی کہ انہیں اتنی شتابی ہوگی
ہر محبّت کو سمجھتا ہے وہ ناول کا ورق
اس پری زاد کی تعلیم کتابی ہوگی
شیخ جی ہم تو جہنّم کے پرندے ٹھہرے
آپ کے پاس تو فردوس کی چابی ہوگی
کردیا موسیٰ کو جس چیز نے بےہوش عدم
بےنقابی نہیں وہ نیم حجابی ہوگی

نفسِ سَرد کی تاثیر شبِ غم دیکھو-داغ دہلوی

نفسِ سَرد کی تاثیر شبِ غم دیکھو
شمع کو تابہ سحر میں نے پگھلنے نہ دیا
بدگماں تھا کہ تپ ہجر نہ کم ہوجائے
اُس نے کافور مری لاش پہ ملنے نہ دیا
اس جفا پر یہ وفا ہے کہ تمہارا شکوہ
دل میں رہنے نہ دیا منہ سے نکلنے نہ دیا
شوق نے راہ محبت میں اُبھارا لیکن
ضعف نے ایک بھی گرتے کو سنبھلنے نہ دیا
اے شبِ ہجر ترا خلق پہ احسان ہوگا
حشر کے دن کو اگر تونے نکلنے نہ دیا
کسی صورت نہ بچا عشق کی رسوائی سے
کہ مجھے نام بھی غیرت نے بدلنے نہ دیا
داغ دہلوی

بیان جب کلیم اپنی حالت کرے ہے-کلیم عاجز

بیان جب کلیم اپنی حالت کرے ہے
غزل کیاپڑھے ہے قیامت کرے ہے
بھلاآدمی تھا پہ نادان نکلا
سناہے کسی سے محبت کرے ہے
کبھی شاعری اس کو کرنی نہ آتی
اسی بے وفا کی بدولت کرے ہے
چھری پہ چھری کھائے جاہے ہے کب سے
اوراب تک جئے ہے کرامت کرے ہے
کرے ہے عداوت بھی وہ اس اداء سے
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے
یہ فتنے جوہرایک طرف اٹھ رہے ہیں
وہی بیٹھابیٹھاشرارت کرے ہے
قباایک دن چاک اس کی بھی ہوگی
جنون کب کسی کی رعایت کرے ہے

کسی مزدور کا گھر کھلتا ہے-تابش دہلوی

کسی مزدور کا گھر کھلتا ہے
یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
کس سے کھلتا ہے اگر کھلتا ہے
داؤ پر دَیر و حرم دونوں ہیں
دیکھیے کون سا گھر کھلتا ہے
پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
تُو تو دستک پہ دیے جا دستک
بند ہوتا ہے تو در کھلتا ہے
چھوٹی پڑتی ہے اَنا کی چادر
پاؤں ڈھکتا ہوں تو سر کھلتا ہے
ایسی شوریدہ سری سے حاصل
درِ زنداں نہیں سر کھلتا ہے
بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابش
بابِ نظارہ نہ مگر کھلتا ہے
تابش دہلوی